ذیل کا مقالہ میں نے ۳۱ اکتوبر ۲۰۱۶ء کو نمل یونیورسٹی کے اردو تحقیقی مجلے دریافت میں اشاعت کے لیے روانہ کیا تھا۔ کچھ عرصہ بعد خبر ملی کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے پاکستان سے شائع ہونے والے سماجی سائنسز کے مجلوں کو روزبروز گرتے ہوئے معیار کے سبب تسلیم نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ گو دریافت کے شمارے اب بھی شائع ہو رہے ہیں لیکن میں نے کچھ انتظار اور زیادہ ناامیدی کے بعد یہ مقالہ اردو نگار ہی پر شائع کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ ایک سبب تو اس کا یہ ہے کہ اب قومی تحقیقی مجلوں میں چھپنا اصولاً اور عملاً نہ چھپنے کے برابر ہو گیا ہے اور دوسرا یہ کہ ہماری جامعات کی روایت کے مطابق کسی تگڑے “محقق” کے اس مقالے پر ہاتھ صاف کرنے کے امکانات روشن تر ہوتے جا رہے ہیں۔ اردو کا شاید ہی کوئی شاعر ہو گا جو تعلی سے بچ سکا ہو۔ اسے بھی منجملہ ان خصوصیات کے شمار کرنا چاہیے جو ہماری غزل کی روایت کو عالمی ادب سے ممتاز کرتی ہیں۔ استادانِ سخن کی تعلیاں خاص طور پر مشہور ہیں جن میں انھوں نے اپنے اپنے تفوق کو ثابت کرنے میں حتی المقدور کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ مرزا غالبؔ کے ہاں البتہ یہ بات خاصی حیران کن ہے کہ اس میدان میں ان کی تقریباً تمام کاوشیں نہایت محتاط اور معذرت خواہانہ قسم کی واقع ہوئی ہیں۔ تعلی کو عام طور پر ہر شاعر کا، عام اس سے کہ اس میں کس قدر صداقت ہے، حق سمجھا جاتا ہے۔ اساتذہ تو پھر چونکہ اپنے فن کا لوہا منوا چکے ہوتے ہیں اس لیے ان کی خودستائیاں ایک گونہ لطف دیتی ہیں۔ غالبؔ نے بھی اس راہ میں قدم مارا ہے اور ان کے دیوان میں اس قسم کے مضامین کی شرح شاید باستثنائے میرؔ باقی […]
روایت
محاورات، روزمرہ، تلمیحات اور ضرب الامثال کو زبان کے زیور کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ ان کی مدد سے سادہ بات کا بیان نہ صرف خوبصورت اور سحرانگیز ہو جاتا ہے بلکہ بسااوقات کلام کی بلاغت بھی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ عہدِ حاضر میں اردو کی مناسب سرکاری سرپرستی نہ ہونے کے سبب عوام بالعموم اور نوجوان نسل بالخصوص زبان کے بہت سے ضروی پہلوؤں سے ویسی واقفیت نہیں رکھتے جیسی کہ ہونی چاہیے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ محاورے، روزمرہ، تلمیح اور ضرب المثل کا تصور اکثریت کے ذہنوں میں پوری طرح واضح نہیں اور انھیں باہمدگر متبادل سمجھنے اور اسی طرح برتنے کا رواج جڑ پکڑ رہا ہے۔ گزشتہ کچھ دنوں میں مجھے اتفاقاً اس قسم کے سوالات سے متواتر پالا پڑا تو خیال آیا کہ کیوں نہ انٹرنیٹ کی اردو گو دنیا کے لیے اس قضیے کو ایک جامع نگارش کے ذریعے فیصل کر دیا جائے۔ معلومات کو جامعیت سے پیش کرنے کے لیے جدول بندی سے بہتر راہ میرے ذہن میں نہیں آتی۔ سو یہی اختیار کی ہے۔ تاہم جدول آخر میں پیش کی گئی ہے اور اس سے پہلے تمام اصطلاحات کی مختصراً وضاحت کرنا ضروری سمجھا گیا ہے۔ اس طرح ان تصورات کا خاکہ پہلے کھنچ جائے گا جو جدول کی مدد سے بعدازاں پوری طرح ذہن نشین کیا جا سکتا ہے۔ اس سے پہلے کہ میں مدعا کی طرف بڑھوں، یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس نگارش کے لیے میں نے مختلف مصادر و مآخذ سے آزادانہ استفادہ کیا ہے۔ تاہم چونکہ یہ تحریر تحقیقی کی بجائے عمومی مقاصد کے لیے لکھی گئی ہے سو حوالہ جات کا تکلف ضروری نہیں سمجھا۔ تمام محبانِ اردو پر درود! محاورہ محاورہ دراصل فعل ہی کی ایک شکل ہے جس میں سادہ طور پر اظہارِ مطلب کی بجائے اہلِ زبان ایک مختلف اور […]
خدا نے ہر عروج کو زوال رکھا ہے مگر ہر زوال کے نصیب میں عروج نہیں لکھا۔ کتنے چڑھے مگر اتر گئے۔ کتنے گرے، کچھ اٹھے، بہت رزقِ خاک ہو گئے۔ مجھے کم از کم اپنے محدود مطالعے کی بنیاد پر ایک بھی قوم ایسی نظر نہیں آئی جس نے اپنے عروج کو ماضی سے کشید کیا ہو۔ وہ لوگ بھی میں نے دیکھے ہیں جو حال کا گہرا شعور رکھتے ہیں۔ مگر ان لوگوں کو تو پوری دنیا نے دیکھا ہے جنھوں نے ماضی اور حال دونوں سے بےنیاز ہو کر مستقبل پر کمند پھینکی۔ میں نے قرآن، عہدنامۂ جدید اور عہدنامۂِ عتیق کو عصرِ نو کے ایک نیمخواندہ مگر دردمند انسان کی حیثیت سے پڑھا ہے۔ ان تینوں کی بنیادی تعلیم مجھے یہ معلوم ہوئی ہے کہ اپنے ماضی سے جان چھڑاؤ۔ اپنے باپ دادا کے منگھڑت افسانوں سے نکل کر دیکھو کہ خدا اور اس کا نظام تم سے کیا تقاضا کر رہا ہے۔ آیاتِ تشریعی کی منچاہی تعبیروں سے حذر کرو اور اور آیاتِ تکوینی کی صورت میں چنگھاڑتے ہوئے خدا کے پیغام کو سنو۔ تاریخ کا مجھے علم نہیں۔ مگر جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے میں ایک بات سنتا آ رہا ہوں۔ وہ بات یہ ہے کہ مسلمان بےعمل ہو گئے ہیں۔ ہمارے زوال کا سبب ہماری بےعملی کے سوا کچھ نہیں۔ کچھ وقت اس بات پر یقین بھی رہا اور اپنے تئیں خود کو باعمل مسلمان بنانے کی کوشش بھی میں کرتا رہا۔ پھر کچھ سوالات کھڑے ہوئے۔ پھر بےراہروی پیدا ہوئی۔ پھر جوابات بھی ملنے لگے۔ میں واپس بھی پلٹ آیا۔ مگر بہت سے لوگ اب تک بھٹک رہے ہیں۔ میں آج انھیں ایک بات بتانا چاہتا ہوں جو مجھے امتِ مرحوم کے زوال کے اصل سبب سے متعلق معلوم ہوئی۔ جھوٹ اور دجل و فریب کے پاس بہت حیلے سہی […]
اردو شاعری پر جمود کا الزام سب سے پہلے حالیؔ نے عائد کیا۔ بعد کو اس سے بڑا جمود اس الزام کی روایت میں پیدا ہو گیا جو تاحال چلا آتا ہے۔ یعنی کسی کو یہ خیال نہیں آیا کہ حالیؔ کا یہ الزام درحقیقت کس تناظر میں تھا اور اس سے ان کا مقصود کیا تھا۔ ہر کس و ناکس نے یہی پتھر اٹھایا اور تاک کر بیچاری غزل کو کھینچ مارا عام اس سے کہ اسے معاملے کا فہم تھا یا نہیں۔ فکرِ ہر کس بقدرِ ہمتِ اوست کے مصداق، اردو کے کوتاہ ہمت ناقدین نے اس الزام کو اپنی تکرار سے تقویت تو دی مگر اس کا صحیح پس منظر سمجھنے میں بری طرح ناکام رہے۔ شوپن ہاؤر نے ہیگل کے فلسفے کو لایعنی قرار دیا ہے اور بوجوہ اس سے سخت نفرت کا اظہار کیا ہے۔ فرض کیجیے موصوف کا یہ خیال کسی ایسے بزعمِ خویش دانشور کو معلوم ہو جاتا ہے جو تمام عمر ہیگل کو سمجھنے ہی سے قاصر رہا ہے۔ شوپن ہاؤر کی یہ رائے اس دانشور کے لیے ایک نعمتِ غیرمترقبہ سے کم ثابت نہیں ہوتی اور وہ جابجا اسے اپنی کوڑھ مغزی کے دفاع میں استعمال کرنے لگتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا شوپن ہاؤر کے اعتراضات اور ہمارے دانشور کی نکتہ سنجیاں ایک جتنی وقعت کی حامل ہوں گے؟ یا کیا اس ہیچمدان کی تنقید کو شوپن ہاؤر کے اٹھائے گئے نکات کے تسلسل میں دیکھنا مناسب ہو گا؟ کیا یہ شدید ناانصافی نہیں ہو گی کہ شوپن ہاؤر کے محاکمے کو، جو ہیگل ہی کی طرح دراصل کانٹ کا خوشہ چین تھا اور ہیگل کا ہم عصر و ہم وطن تھا، ایک ایسے شخص کی جاہلانہ رائے کے موافق سمجھا جائے جسے اس پورے پس منظر سے دور دور تک کوئی علاقہ نہیں؟ میرا خیال ہے کہ […]
دیوانِ غالبؔ کا پہلا شعر ہے: نقش فریادی ہے کس کی شوخئِ تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا اس شعر پہ گو کہ نہایت شرح و بسط سے تمام شارحین نے گفتگو کی ہے مگر غیر شارحین کو ہنوز موقع نہیں ملا۔ ہمارے خیال میں یہ کافی بنیاد ہے کہ ہم بھلے ان بزرگوں ہی کی تفسیروں کو چبا چبا کر اگل ڈالیں لیکن کم سے کم غالبؔ کے طرفداروں میں تو شمار ہو ہی جائیں۔ آپ اسے سوت کی انٹی سمجھیے یا انگلی پہ خون، ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا! نقش فریادی ہے کس کی شوخئِ تحریر کا نقش سے مراد تصویر ہے۔ شوخی ہماری ادبی روایت میں صرف شوخ ہونا نہیں بلکہ محبوب کی ستم گری بھی کسی قدر اس کے مفہوم میں شامل ہو گئی ہے۔ فریادی یعنی فریاد کرنے والا۔ تحریر کا مطلب لکھائی نہ سمجھیے۔ مصوری بھی تحریر میں شامل کیجیے۔ دونوں قلم کا کمال ہیں۔ شاعر سوال کرتا ہے کہ تصویر کس کے قلم یا تحریر کی شوخیوں کی بابت فریاد کر رہی ہے۔ کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا زمانہءِ قدیم کے ایران میں رسم تھی کہ فریادی بادشاہ کے دربار میں کاغذ کی پوشاک پہن کر آتے تھے۔ یعنی کاغذ پہن لینے کا مطلب ہی یہ تھا کہ موصوف پر کوئی ستم ٹوٹا ہے جس کی داد رسی مقصود ہے۔ پیرہن کا مطلب لباس۔ پیکرِ تصویر یعنی تصویر کا جسم۔ تصویر کا بدن۔ اب مصرعِ ثانی پر غور کیجیے۔ عام طور پر تصویر کاغذ پر بنتی ہے۔ شاعر نے نکتہ پیدا کیا ہے کہ ہر تصویر نے گویا کاغذ کی پوشاک پہن رکھی ہے۔ اب پورے شعر کا مفہوم دیکھیے۔ ہر تصویر نے گویا کاغذ کی پوشاک پہن رکھی ہے۔ یعنی ہر تصویر فریادی ہے۔ ہر نقش کسی کی شوخی یا ستم گری کے بارے میں شکایت کر رہا […]
آداب، دوستو۔ کل کا روزِ سعید سب کو مبارک! بچپن سے میری ایک عادت رہی ہے۔ میں بزرگوں، اور بعض اوقات اپنے قابل اور لائق ہم عمروں کے لیے بھی کرسی چھوڑ دیا کرتا ہوں۔ میری عمر کوئی سات برس ہو گی کہ ایک روز ابو جان گھر آئے۔ میں عادتاً کھڑا ہو گیا۔ ابو شاید میری کسی بات پر ناراض تھے۔ فرمانے لگے: کرسی چھوڑنا کوئی نیکی نہیں۔ احترام اور قدر حقیقی نیکی ہے۔ اس سے محروم ہو تو کرسی چھوڑنے کی کیا ضرورت؟ میں آج بھی لوگوں کے لیے عادتاً کرسی چھوڑ دیتا ہوں۔ مگر واللہ کم ہی ایسا ہوا ہو گا کہ میں نے کسی ایسے شخص کے لیے جگہ خالی کی ہو جس کی قدر میرے دل میں نہ ہو اور مجھے یہ بات یاد آ کے دل میں کانٹے کی طرح نہ چبھی ہو۔ مگر کیا کریں؟ کرنا پڑتا ہے۔ اور تو اور عیدوں پہ بھی کرنا پڑتا ہے۔ کرسی چھوڑنا تو ایک طرف، قربانی کرنا پڑتی ہے۔ ورنہ کہاں روحِ ابراہیمی اور کہاں ہماری جاں نثاریاں؟ کون کہ سکتا ہے کہ ابوالانبیا علیہ السلام کی سنت ہم زندہ کر رہے ہیں؟ اللہ میاں تو فرماتے ہیں اپنی سب سے پیاری چیز قربان کرو۔ ابراہیم علیہ الصلواۃ والسلام کو بیٹا سب سے پیارا تھا۔ دے دیا۔ کیا ہمیں واقعی دنیا میں سب سے پیارا اپنا بکرا ہوتا ہے، صاحبو؟ کیسی قربانی، کہاں کی جانثاری؟ کون سی حق پرستی؟ کیا کر رہے ہیں ہم؟ کرسی چھوڑ رہے ہیں بس! کیا کریں؟ مجبوری ہے۔
غالب کی شاعری نے جہاں عامۃ الناس کے دلوں کو لبھایا ہے وہاں ادب پرور طبقے کو بھی دمادم نت نئے پیچوں میں الجھائے رکھا ہے۔ خدا کے سادہ دل بندے تو مرزا کے اشعار پڑھ کر اور شارحین کے بتائے ہوئے مفاہیم پر بھروسا کر کے سر دھن لیتے ہیں، مگر بیچارے شارحین خود سر پٹکتے پھرتے ہیں۔ گنجینۂِ معنیٰ کا طلسم اس کو سمجھیے جو لفظ کہ غالبؔ مرے اشعار میں آوے شارحین و مفسرینِ غالبؔ نے موصوف کے اس ارشاد پر کماحقہ عمل کیا ہے اور عرصہءِ دراز سے ہر ہر لفظ کو ایک طلسمِ ہوش ربا ثابت کر دکھانے پر تلے ہوئے ہیں۔ پنچابی کے ایک ناگفتہ بہ محاورے کے مطابق چوکنی چھنال زیادہ زک اٹھاتی ہے۔ اسی قاعدے پر شارحین بھی بہت جگہوں پر چوکے ہیں، مگر زک انھوں نے کم اور کلامِ غالب نے زیادہ اٹھائی ہے! مرزا کی ایک نہایت مشہور غزل کے ایک شعر پر چند شارحین کی معنیٰ آفرینیاں میری نظر سے گزری ہیں۔ شعر یوں ہے: ترے سروِ قامت سے اک قدِ آدم قیامت کے فتنے کو کم دیکھتے ہیں جو کچھ نکتہ سرائیاں مفسرین کر چکے ہیں اس کے بعد بچارے معنیٰ کی نشاۃِ ثانیہ کے امکان تو کم ہی ہیں، مگر غالب کی عظمت ہمیں مجبور کرتی ہے کہ کم از کم حجت تمام کر دی جائے۔ تو صاحبو، بات صرف اس قدر ہے کہ محبوب کی قامت تو جو تھی سو تھی، ستم بالائے ستم یہ ہو گیا کہ قیامت کا فتنہ بھی اس میں شامل ہو گیا۔ مگر غالب نے اس معاملے کو جمع کے قاعدے سے بیان کرنا مناسب نہیں سمجھا اور تفریق کے عمل سے مدعا بیان کرنے کو ترجیح دی ہے۔ بس یہیں سے سارا بکھیڑا شروع ہوتا ہے۔ فرماتے غالب یہ ہیں کہ میں محبوب کے قامت سے قیامت کے فتنے کو […]
آج میں ایک فلم دیکھ رہا تھا۔ ایک غریب نوجوان۔ ایک نسبتاً امیر گھرانے کی لڑکی۔ دونوں ایک دوسرے کی محبت میں سرشار۔ لڑکی کا باپ حسبِ عادت سیخ پا۔ سب کچھ وہی تھا۔ روایتی فنکار۔ روایتی ماحول۔ روایتی کشمکش۔ روایتی جملہ بازیاں۔ مگر ایک بات نے مجھے چونکا دیا۔ لڑکی کا باپ مستقبل کے دولہا میاں کی بابت کچھ اس قسم کے خیالات کا اظہار کر رہا تھا کہ اس کے پاس پھوٹی کوڑی تک تو ہے نہیں۔ برسات میں وہ ایک دن چھوڑ کے نوکری پر جاتا ہے کیونکہ اس کے پاس صرف ایک جانگیا ہے جسے سوکھنے میں رومان انگیز گھٹاؤں کے طفیل ایک دن لگ جاتا ہے۔ وہ اتنی نازوں پلی بٹیا کو کیسے خوش رکھے گا۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ مکالمہ ناٹک کی تاریخ کا شاید روایتی ترین مکالمہ ہے۔ اور یہی چیز میری حیرت کا باعث ہے۔ انسان کتنا کم سیکھتا ہے۔ صدیوں بلکہ ہزاریوں کے معاشرتی تجربات آج تک ہمیں یہ نہیں سکھا سکے کہ مسرت، اطمینان اور سکون دولت مند داماد کی جاگیر نہیں ہیں۔ ہماری بہنوں بیٹیوں کے لیے پرسکون زندگیوں کی ضمانت پیسا نہیں دے سکتا۔ شاندار بنگلے شاندار انسانوں سے زیادہ قابلِ قدر نہیں۔ اے سی دل ٹھنڈا نہیں کر سکتا۔ کار سوچوں کے فاصلے کم نہیں کر سکتی۔ روپیہ وفا نہیں خرید سکتا۔ اور شاید تعلیم بھی آپ کو دانا نہیں بنا سکتی۔ آخری بات کا واضح ترین ثبوت تو اکیسویں صدی کے وہی پڑھے لکھے والدین ہیں جو اولاد کے لیے جذباتی سکون کی بجائے معاشی تحفظ تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ صاحبو، جہاں تک میں سمجھا ہوں انسان کی پرمسرت زندگی کا صرف ایک راز ہے۔ محبت! محبت ہو تو دولت سکون دیتی ہے۔ تعلیم دانائی سکھاتی ہے۔ اولاد نورِ چشم بنتی ہے۔ جائیداد صدقۂِ جاریہ میں بدل جاتی ہے۔ غربت رنج نہیں پہنچاتی۔ بے اولادی روگ نہیں […]