قدرتِ حق کی مصلحت سے مجھے نیکیوں پر کیا گیا مجبور میں گناہوں سے دور کیا ہوتا ہو گئے سب گناہ مجھ سے دور راحیلؔ فاروق ۱۶ دسمبر ۲۰۱۳ء
اردو
میری عمر آٹھ برس ہو گی۔ امی نے سب بہن بھائیوں کے پیسے میرے ہاتھ میں تھما دیے۔ بڑا بھائی ہونے کے ناتے میری ذمہ داری تھی کہ میں سب کو شاپنگ کراؤں۔ جھومتے جھامتے باہر نکلے۔ تھوڑی دیر بجٹ پر بالغانہ بحث ہوئی۔ پھر سب آئسکریم کھانے پر متفق ہو گئے۔ تین کونز خریدی گئیں۔ میں نے سب سے پہلے اپنی کون چاٹ کر اس کے ملکیتی حقوق محفوظ کیے اور باقی دو دونوں بہنوں کے حوالے کر دیں۔ ہمارا چھوٹا بھائی عدیل، جسے ہم دیلی بلاتے ہیں، یہ تمام غیر اخلاقی حرکات تمام تر جزئیات کے ساتھ اپنی شارٹ ٹرم میموری میں محفوظ کر رہا تھا۔ اس نے طبلِ جنگ بجا دیا۔ ایک دل دوز چیخ کے ساتھ اس نے چھینا چھپٹی کی کوشش کی مگر بھکے دا کی زور محمد، نس جانا یا رونا۔ اس نے دھائیں دھائیں رونا شروع کر دیا۔ میں نے اسے بہتیرا سمجھایا کہ میاں اگر تمھیں دے دیتے تو ہم کیا کھاتے؟ مگر سفارتی تعلقات منقطع ہو چکے تھے۔ بہنوں نے ہمارے برادرانہ معاملات میں دخل دینا مناسب نہیں سمجھا۔ وہ اپنی اپنی آئسکریم کے ساتھ محفوظ مقامات پر منتقل ہو گئیں۔ کوئی اور چارہ نہ دیکھا تو میں نے بھائی کو کون کا نچلا دھڑ پیش کیا۔ اس پر صدمے کا ایک اور دورہ پڑ گیا۔ میں نے بھی جھگڑے پر لعنت بھیجی اور آرام سے آئسکریم کھانے لگا۔ بس اتنا ہی ہوتا ہے۔ اور کیا کر سکتا تھا میں؟ دیلی گلی میں بیٹھا روتا رہا۔ میری آئسکریم ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ ابو جان دیلی پر جھکے ہوئے نظر آئے۔ پھر وہ میری طرف بڑھے۔ میرے اوسان خطا ہو گئے۔ ایک آدھ تھپڑ پڑا۔ ڈھیر ساری ڈانٹ۔ اور پھر ان گناہگار آنکھوں نے دیلی کو دو کونز اکٹھی کھاتے بھی دیکھا۔ اس کہانی کا دوسرا رخ ماں جی سے […]
آداب، دوستو۔ کل کا روزِ سعید سب کو مبارک! بچپن سے میری ایک عادت رہی ہے۔ میں بزرگوں، اور بعض اوقات اپنے قابل اور لائق ہم عمروں کے لیے بھی کرسی چھوڑ دیا کرتا ہوں۔ میری عمر کوئی سات برس ہو گی کہ ایک روز ابو جان گھر آئے۔ میں عادتاً کھڑا ہو گیا۔ ابو شاید میری کسی بات پر ناراض تھے۔ فرمانے لگے: کرسی چھوڑنا کوئی نیکی نہیں۔ احترام اور قدر حقیقی نیکی ہے۔ اس سے محروم ہو تو کرسی چھوڑنے کی کیا ضرورت؟ میں آج بھی لوگوں کے لیے عادتاً کرسی چھوڑ دیتا ہوں۔ مگر واللہ کم ہی ایسا ہوا ہو گا کہ میں نے کسی ایسے شخص کے لیے جگہ خالی کی ہو جس کی قدر میرے دل میں نہ ہو اور مجھے یہ بات یاد آ کے دل میں کانٹے کی طرح نہ چبھی ہو۔ مگر کیا کریں؟ کرنا پڑتا ہے۔ اور تو اور عیدوں پہ بھی کرنا پڑتا ہے۔ کرسی چھوڑنا تو ایک طرف، قربانی کرنا پڑتی ہے۔ ورنہ کہاں روحِ ابراہیمی اور کہاں ہماری جاں نثاریاں؟ کون کہ سکتا ہے کہ ابوالانبیا علیہ السلام کی سنت ہم زندہ کر رہے ہیں؟ اللہ میاں تو فرماتے ہیں اپنی سب سے پیاری چیز قربان کرو۔ ابراہیم علیہ الصلواۃ والسلام کو بیٹا سب سے پیارا تھا۔ دے دیا۔ کیا ہمیں واقعی دنیا میں سب سے پیارا اپنا بکرا ہوتا ہے، صاحبو؟ کیسی قربانی، کہاں کی جانثاری؟ کون سی حق پرستی؟ کیا کر رہے ہیں ہم؟ کرسی چھوڑ رہے ہیں بس! کیا کریں؟ مجبوری ہے۔
جونؔ ایلیا کا ایک قول اکثر و بیشتر پڑھے لکھے دوستوں کے طفیل نظر سے گزرتا رہتا ہے جس میں انھوں نے خوش رہنے کا تعلق بے حسی سے بتایا ہے اور دلیل دی ہے کہ عظیم لوگوں کی اکثریت اپنی زندگیوں میں اداس رہی ہے۔ دانشمندوں کی بات تو ایک طرف رہی، مجھے یاد آتا ہے کہ مائیکل جیکسن جیسے عوامی سطح کے شخص نے بھی اپنی تمام تر مقبولیت، شہرت اور دولت کے باوجود اعتراف کیا تھا کہ وہ خود کو دنیا کا تنہا ترین انسان خیال کرتا ہے۔ ایک صاحب ہیں، احمد جاوید۔ فیس بک پر ان کا پیج کوئی صاحب چلاتے ہیں اور ان کے افکار و اشعار وغیرہ سے نوازتے رہتے ہیں۔ آج احمد جاوید صاحب کا ایک قول پڑھا: خوش رہنا ایک روحانی ذمہ داری ہے۔ اسلام نے ہمیں یہی تعلیم دی ہے۔ مایوسی کو کفر قرار دیا گیا ہے۔ تاہم اگر آپ عظیم لوگوں میں انبیا، اولیا اور صوفیا وغیرہ کو شمار نہ کریں تو شاید جونؔ کے خیال سے کسی حد تک اتفاق کیا جا سکتا ہے۔ لیکن حق یہ ہے کہ فلاسفہ اور دانش وروں سے کہیں زیادہ بڑا حلقۂِ اثر ان بزرگوں کا رہا ہے۔ نظریاتی اختلافات اپنی جگہ، مگر عظما کی فہرست سے انھیں خارج کرنا ایسی بددیانتی ہے جس کا مقدمہ خود تاریخ لڑنے کو تیار بیٹھی ہے۔ اب جہاں تک ان مذہبی بزرگوں کا تعلق ہے، ان کی اکثریت کی بابت ہم بڑے تیقن سےکہہ سکتے ہیں کہ یہ لوگ زندگی سے نالاں نہیں تھے۔ زندگی نے مثلاً جونؔ کو یا شوپن ہاؤر کو جتنے چرکے لگائے، ان سے کہیں زیادہ اور گہرے گھاؤ احمد بن حنبلؒ اور مسیحِؑ مصلوب کو لگے۔ کیا غضب ہے کہ ان کی تعلیمات میں قنوطیت پھر بھی بار نہ پا سکی۔ باقی مناقب سے لحظہ بھر کے لیے صرفِ نظر کر […]
حسن والوں کے نام ہو جائیں ہم خود اپنا پیام ہو جائیں چار ہونے پہ ان کی آنکھوں نے طے کیا ہم کلام ہو جائیں حد تو یہ ہے کہ ان کے جلوے بھی احتراماً حرام ہو جائیں خاص لوگوں کے خاص ہونے کی انتہا ہے کہ عام ہو جائیں اس کی محنت حلال ہو جائے جس کی نیندیں حرام ہو جائیں ان کو سجدے تو کیا کریں راحیلؔ تذکرے صبح و شام ہو جائیں راحیلؔ فاروق
یہ نہیں ہے کہ غم عزیز نہیں مجھے دل بھی تو کم عزیز نہیں ٹوٹتے ہیں تو ٹوٹ جائیں پاؤں منزلوں سے قدم عزیز نہیں آپ اپنا بچاؤ کر لیجے دل کو دل کا بھرم عزیز نہیں مرگِ الفت کا خوف ہے ورنہ جاں خدا کی قسم عزیز نہیں حسن والوں کا پاس ہے راحیلؔ ورنہ ہم کو ستم عزیز نہیں راحیلؔ فاروق
صاحبو، میں کوئی بہت پڑھا لکھا شخص نہیں ہوں۔ ضروری نہیں کہ میری باتیں آپ کو نہایت معقول اور صائب معلوم ہوں۔ مگر مجھے ایک طویل عرصہ فلسفہ و ادب کے میدانوں میں آوارگی کے بعد اپنی جستجو کی ثمر آوری اور صداقت شناسی پر کسی قدر اعتماد نصیب ہوا ہے جس کی وجہ سے کبھی کبھی کچھ باتوں پر اپنی رائے کا اظہار فائدہ مند معلوم ہوتا ہے۔ میرے ایک بہت پسندیدہ فلسفی شوپن ہاؤر نے ایک نہایت عمدہ بات کہی تھی جس کی صداقت کو میں نے جس قدر پرکھا ہے اسی قدر اس پر ایمان بڑھتا چلا گیا ہے۔ موصوف نے فرمایا تھا کہ آپ حق کو کبھی دوسروں کے لیے تلاش نہیں کر سکتے۔ آپ کو حقیقت کی تجلی صرف تبھی نصیب ہو گی جب آپ اس کی جستجو خالصتاً اپنی ذات اور اپنے فائدے کے لیے کریں گے۔ دوسروں کو دکھانے کے لیے، کسی سے حسد میں، مسابقت میں، خوشامد میں،، کسی کی ہمدردی میں، کسی اور کی خاطر، بھلے وہ آپ کے والدین ہی کیوں نہ ہوں، اگر آپ کائنات کے بھید ڈھونڈنے نکلیں گے تو کبھی کچھ حقیقی منفعت نہ پائیں گے۔ اگر ملے گا تو صرف تب جب آپ کی جستجو کا محور صرف اپنی ذات، صرف اپنے بلند تر فائدے کا لالچ ہو گا۔ لہٰذا ہمیں اپنی ارفع جستجوؤں یعنی مذہبی، روحانی اور فکری وغیرہ معاملات میں صرف اپنا طمع کرنا چاہیے۔ اس رمز کی تفہیم ممکنہ غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے شاید تھوڑی تفصیل کی متقاضی ہو، مگر اسے پھر کسی اور وقت پر اٹھا رکھتے ہیں۔ میں کہنا یہ چاہ رہا تھا کہ ادب کے بہت سارے معاملات کو میں نے مشاعروں، محفلوں، مجلسوں اور چائے خانوں وغیرہ کی نکتہ سنجیوں کے لیے پڑھنے کی بجائے خالص اپنے مفاد کے لیے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ اس دوران […]
غالب کی شاعری نے جہاں عامۃ الناس کے دلوں کو لبھایا ہے وہاں ادب پرور طبقے کو بھی دمادم نت نئے پیچوں میں الجھائے رکھا ہے۔ خدا کے سادہ دل بندے تو مرزا کے اشعار پڑھ کر اور شارحین کے بتائے ہوئے مفاہیم پر بھروسا کر کے سر دھن لیتے ہیں، مگر بیچارے شارحین خود سر پٹکتے پھرتے ہیں۔ گنجینۂِ معنیٰ کا طلسم اس کو سمجھیے جو لفظ کہ غالبؔ مرے اشعار میں آوے شارحین و مفسرینِ غالبؔ نے موصوف کے اس ارشاد پر کماحقہ عمل کیا ہے اور عرصہءِ دراز سے ہر ہر لفظ کو ایک طلسمِ ہوش ربا ثابت کر دکھانے پر تلے ہوئے ہیں۔ پنچابی کے ایک ناگفتہ بہ محاورے کے مطابق چوکنی چھنال زیادہ زک اٹھاتی ہے۔ اسی قاعدے پر شارحین بھی بہت جگہوں پر چوکے ہیں، مگر زک انھوں نے کم اور کلامِ غالب نے زیادہ اٹھائی ہے! مرزا کی ایک نہایت مشہور غزل کے ایک شعر پر چند شارحین کی معنیٰ آفرینیاں میری نظر سے گزری ہیں۔ شعر یوں ہے: ترے سروِ قامت سے اک قدِ آدم قیامت کے فتنے کو کم دیکھتے ہیں جو کچھ نکتہ سرائیاں مفسرین کر چکے ہیں اس کے بعد بچارے معنیٰ کی نشاۃِ ثانیہ کے امکان تو کم ہی ہیں، مگر غالب کی عظمت ہمیں مجبور کرتی ہے کہ کم از کم حجت تمام کر دی جائے۔ تو صاحبو، بات صرف اس قدر ہے کہ محبوب کی قامت تو جو تھی سو تھی، ستم بالائے ستم یہ ہو گیا کہ قیامت کا فتنہ بھی اس میں شامل ہو گیا۔ مگر غالب نے اس معاملے کو جمع کے قاعدے سے بیان کرنا مناسب نہیں سمجھا اور تفریق کے عمل سے مدعا بیان کرنے کو ترجیح دی ہے۔ بس یہیں سے سارا بکھیڑا شروع ہوتا ہے۔ فرماتے غالب یہ ہیں کہ میں محبوب کے قامت سے قیامت کے فتنے کو […]
آج میں ایک فلم دیکھ رہا تھا۔ ایک غریب نوجوان۔ ایک نسبتاً امیر گھرانے کی لڑکی۔ دونوں ایک دوسرے کی محبت میں سرشار۔ لڑکی کا باپ حسبِ عادت سیخ پا۔ سب کچھ وہی تھا۔ روایتی فنکار۔ روایتی ماحول۔ روایتی کشمکش۔ روایتی جملہ بازیاں۔ مگر ایک بات نے مجھے چونکا دیا۔ لڑکی کا باپ مستقبل کے دولہا میاں کی بابت کچھ اس قسم کے خیالات کا اظہار کر رہا تھا کہ اس کے پاس پھوٹی کوڑی تک تو ہے نہیں۔ برسات میں وہ ایک دن چھوڑ کے نوکری پر جاتا ہے کیونکہ اس کے پاس صرف ایک جانگیا ہے جسے سوکھنے میں رومان انگیز گھٹاؤں کے طفیل ایک دن لگ جاتا ہے۔ وہ اتنی نازوں پلی بٹیا کو کیسے خوش رکھے گا۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ مکالمہ ناٹک کی تاریخ کا شاید روایتی ترین مکالمہ ہے۔ اور یہی چیز میری حیرت کا باعث ہے۔ انسان کتنا کم سیکھتا ہے۔ صدیوں بلکہ ہزاریوں کے معاشرتی تجربات آج تک ہمیں یہ نہیں سکھا سکے کہ مسرت، اطمینان اور سکون دولت مند داماد کی جاگیر نہیں ہیں۔ ہماری بہنوں بیٹیوں کے لیے پرسکون زندگیوں کی ضمانت پیسا نہیں دے سکتا۔ شاندار بنگلے شاندار انسانوں سے زیادہ قابلِ قدر نہیں۔ اے سی دل ٹھنڈا نہیں کر سکتا۔ کار سوچوں کے فاصلے کم نہیں کر سکتی۔ روپیہ وفا نہیں خرید سکتا۔ اور شاید تعلیم بھی آپ کو دانا نہیں بنا سکتی۔ آخری بات کا واضح ترین ثبوت تو اکیسویں صدی کے وہی پڑھے لکھے والدین ہیں جو اولاد کے لیے جذباتی سکون کی بجائے معاشی تحفظ تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ صاحبو، جہاں تک میں سمجھا ہوں انسان کی پرمسرت زندگی کا صرف ایک راز ہے۔ محبت! محبت ہو تو دولت سکون دیتی ہے۔ تعلیم دانائی سکھاتی ہے۔ اولاد نورِ چشم بنتی ہے۔ جائیداد صدقۂِ جاریہ میں بدل جاتی ہے۔ غربت رنج نہیں پہنچاتی۔ بے اولادی روگ نہیں […]
خدا فروشی کہنے کو تو چند حروف کا چھوٹا سا ایک مجموعہ ہے جسے ہم آدھے ثانیے سے بھی کم وقت میں ادا کر کے سبکدوش ہو سکتے ہیں۔ مگر اپنی معنویت کے اعتبار سے یہ لفظ انسانی اعمال کے ایک ناقابلِ تصور حد تک وسیع حصے کو محیط ہے۔ معاشرہ ہماری ایک مسلمہ حیثیت یعنی خدا پرستی پر بھروسا کرتا ہے اور امید کرتا ہے کہ ہم اپنی زندگی کے اکثر اعمال کو اس حیثیت اور مقام کے اعتبار سے بجا لائیں گے۔ اس صورتِ حال میں جبکہ ہم معاشرے کو اپنے اہلِ ایمان ہونے کا بھروسا دلا چکے ہوتے ہیں، ہم سے سرزد ہونے والی ہر برائی اور نادانی خدا فروشی کے زمرے میں آنے لگتی ہے۔ لوگ ہماری بری باتوں اور کاموں کو ہمارے بظاہر خدا پرستانہ تاثر سے دھوکا کھا کر اعتبار کے لائق خیال کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ایک محتسبِ اعلیٰ یعنی خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور اس طرح اپنے اعمال کی اچھائی اور برائی کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ لہٰذا وہ توقع رکھتے ہیں کہ ہم بددیانتی وغیرہ سے ہر ممکن اجتناب کریں گے۔ دوسری جانب ہم خدا کے پاک نام کی قیمت پر نفس کی خریداریوں میں اس قدر منہمک ہو جاتے ہیں کہ رفتہ رفتہ خدا فروشی ہمارے لیے عین خدا پرستی کے مترادف ہو جاتی ہے۔ کسی شخص کو فریب دینے میں ہمیں دقت کا سامنا ہے، ہم خدا کی قسمیں پھانک کر اپنی آواز میں اثر پیدا کریں گے۔ کوئی ہماری بے ایمانیوں پر معترض ہے، ہم جھٹ قرآن کو بیچ میں لا کھڑا کریں گے۔ رسول صلعم کی قسمیں کھائیں گے، پنجتن پاک کے واسطے دیں گے، اپنے نادیدہ ایمان سے سند لائیں گے۔ یہ سب صورتیں بنیادی طور پر خدا کا مذاق اڑانے کے مترادف ہیں۔ گویا خدا، اس کا نازل کردہ دین […]
دل میں ہے دوست کا مکان بھلا کون چھوئے یہ آسمان بھلا تیرے پیروں کی دھول ہو جاؤں اتنی ہو سکتی ہے اڑان بھلا حسن بھی تو ہے عشق بھی تو ہے مختصر ہے یہ داستان بھلا دل کی دنیا میں ہو سکون اگر دو جہانوں سے یہ جہان بھلا میرے دل سے بڑی نہیں دنیا کون دے گا تجھے امان بھلا ہائے قاتل کا ہم نوا ہے دل اب کہاں سے بچے گی جان بھلا آپ کہیے برا بھلا کہیے ہم کہاں رکھتے ہیں زبان بھلا آپ اچھے ہیں خلق جانتی ہے میں گنہ گار بے نشان بھلا تم تو دانائے راز ہو راحیلؔ تم کرو عشق کا بیان بھلا راحیلؔ فاروق
چھن گئے خود سے تمھارے ہو گئے تم پہ عاشق دل کے مارے ہو گئے کچھ دن آوارہ پھرے سیارہ وار رہ گئے تم پر ستارے ہو گئے تجھ پہ قرباں اے جمالِ عہد سوز جس کے بیاہے بھی کنوارے ہو گئے کیا اسی کو کہتے ہیں ربطِ دلی چور دل کے جاں سے پیارے ہو گئے ہم تھے تیرے خاکساروں میں شمار حاسدوں میں چاند تارے ہو گئے چار نظریں چار باتیں چار دن ہم تمھارے تم ہمارے ہو گئے اک نظر کرنے سے تیرا کیا گیا اہلِ دل کے وارے نیارے ہو گئے کچھ تو خود دل پھینک تھے راحیلؔ ہم کچھ اُدھر سے بھی اشارے ہو گئے راحیلؔ فاروق