ذیل کا مقالہ میں نے ۳۱ اکتوبر ۲۰۱۶ء کو نمل یونیورسٹی کے اردو تحقیقی مجلے دریافت میں اشاعت کے لیے روانہ کیا تھا۔ کچھ عرصہ بعد خبر ملی کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے پاکستان سے شائع ہونے والے سماجی سائنسز کے مجلوں کو روزبروز گرتے ہوئے معیار کے سبب تسلیم نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ گو دریافت کے شمارے اب بھی شائع ہو رہے ہیں لیکن میں نے کچھ انتظار اور زیادہ ناامیدی کے بعد یہ مقالہ اردو نگار ہی پر شائع کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ ایک سبب تو اس کا یہ ہے کہ اب قومی تحقیقی مجلوں میں چھپنا اصولاً اور عملاً نہ چھپنے کے برابر ہو گیا ہے اور دوسرا یہ کہ ہماری جامعات کی روایت کے مطابق کسی تگڑے “محقق” کے اس مقالے پر ہاتھ صاف کرنے کے امکانات روشن تر ہوتے جا رہے ہیں۔ اردو کا شاید ہی کوئی شاعر ہو گا جو تعلی سے بچ سکا ہو۔ اسے بھی منجملہ ان خصوصیات کے شمار کرنا چاہیے جو ہماری غزل کی روایت کو عالمی ادب سے ممتاز کرتی ہیں۔ استادانِ سخن کی تعلیاں خاص طور پر مشہور ہیں جن میں انھوں نے اپنے اپنے تفوق کو ثابت کرنے میں حتی المقدور کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ مرزا غالبؔ کے ہاں البتہ یہ بات خاصی حیران کن ہے کہ اس میدان میں ان کی تقریباً تمام کاوشیں نہایت محتاط اور معذرت خواہانہ قسم کی واقع ہوئی ہیں۔ تعلی کو عام طور پر ہر شاعر کا، عام اس سے کہ اس میں کس قدر صداقت ہے، حق سمجھا جاتا ہے۔ اساتذہ تو پھر چونکہ اپنے فن کا لوہا منوا چکے ہوتے ہیں اس لیے ان کی خودستائیاں ایک گونہ لطف دیتی ہیں۔ غالبؔ نے بھی اس راہ میں قدم مارا ہے اور ان کے دیوان میں اس قسم کے مضامین کی شرح شاید باستثنائے میرؔ باقی […]
نثر
جنون کی نسبت عمومی خیال یہ ہے کہ اس میں دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ مجھے اجازت دیجیے تو عرض کروں کہ یہ محض خیالِ خام ہے۔ مجنون یا دیوانے کا ذہن ایک صحت مند شخص کی طرح بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ ہی کام کرتا ہے۔ فرق صرف اس قدر ہے کہ اس کی سوئی بعض مخصوص مقامات پر اٹکی رہ جاتی ہے۔ مثلاً اگر وہ عشق کا گرفتار ہے تو اپنے معشوق کے خیال سے باہر نہیں آ سکتا۔ یہ خیال اس کے لیے زندگی کے برابر اہمیت اختیار کر جاتا ہے لہٰذا اس کا دماغ تمام باقی معاملات کو ہنگامی طور پر موقوف کر کے اسی پر پھرکی کی طرح گھومنے لگتا ہے۔ اگر ہم کسی طرح اس دیوانے کے زاویۂِ نگاہ سے اس کے مسئلے کو دیکھنے کے قابل ہو جائیں تو وہ ہمیں بالکل دیوانہ معلوم نہیں ہو گا بلکہ دلائل و براہین کے ساتھ تدبر کرنے والا ایک عاقل شخص دکھائی دے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کیفیت میں باقی دیکھنے والوں کو ہم بھی دیوانے نظر آنے لگیں گے۔ میں نے اکثر غور کیا ہے کہ دیوانوں کی بظاہر ناقابلِ فہم گفتگو اور غیرمنطقی رویے ایک بڑے زبردست نظام کے تابع ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ان میں اتنی ذہانت پائی جاتی ہے کہ اوسط درجے کے صحت مند ذہن کو اس کا عشرِ عشیر بھی میسر نہیں ہوتا۔ شاید اس کی وجہ بھی یہی ہو کہ دیوانوں کے ذہن اپنی پوری قوت کو ایک ہی نکتے پر مرتکز اور مجتمع کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جس کا موقع علائقِ دنیا میں الجھے ہوئے دماغوں کو شاذ ہی ملتا ہے۔ یہ خیال بھی لائقِ اعتنا نہیں کہ دیوانوں کا ذہن انتشار کا شکار ہوتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دیوانگی انتشار سے پیدا تو ہو سکتی ہے مگر انتشار […]
دشوار کاموں میں بڑا دشوار یہ ہے کہ اپنی شکست تسلیم کی جائے۔ اپنے عجز کا اعتراف کیا جائے۔ خود کو نیچ اور نیچا مان لیا جائے۔ دفتر کے صاحب کی چاکری سے لے کر مالکالملک کی بندگی تک بشر کی زندگی کا کوئی مقام نہیں جہاں اسے اس دشواری کا سامنا نہ ہوتا ہو۔ ہر کوئی ہر جگہ ہر وقت کسی نہ کسی روپ میں ہارتا ہے مگر ہار ماننے کا ہنر نہیں سیکھ پاتا۔ کتنی عجیب بات ہے! مجھے میرے ایک مرحوم استاد اکثر یاد آتے ہیں۔ وہ ہمارے پیٹی ماسٹر ہوا کرتے تھے۔ اللہ جنت نصیب فرمائے۔ اونچے لمبے قد کے وجیہہ ریٹائرڈ فوجی۔ ہاتھ میں چھڑی۔ سر پر ٹوپی۔ سینہ یوں تنا ہوا کہ گویا کسی نے کمر میں ہتھوڑا مار کر اسے آگے کو ابھار دیا ہو۔ مگر پھر بھی نجانے کیوں کبھی کبھی لگتا تھا کہ وہ چلتے چلتے گر پڑیں گے۔ پیٹی تو ہم نے کم کم ہی کی مگر ان کے پاس ہفتے میں دو چار بار کسی نہ کسی پیریڈ میں بیٹھنے کا موقع مل جایا کرتا تھا۔ ان کی باتیں سننے میں بڑا مزا آتا تھا۔ بڑا سوز اور بڑا درد تھا ان کی گفتگو میں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ انسان درد سے اس طرح بھی محظوظ ہوتا ہے۔ وہ اکثر ایک فقرہ بولا کرتے تھے۔ ناک سکیڑ کر، آنکھوں کو ماتھے پر چڑھا کر، ہونٹ بھینچ کر، چھڑی زور سے پٹخ کر۔ ایسی حقارت سے گویا کسی مہذب بابو کا جی کسی خارشزدہ کتے کو دیکھ کر متلا گیا ہو۔ “اے نوں موری آلا انسان۔۔۔” نو موری والا انسان؟ دبی دبی ہنسی سنائی دیتی۔ لڑکے کھسر پھسر کرنے لگتے۔ موریاں گنی جانے لگتیں۔ پیٹی صاحب (انھیں پیٹیآئی کہنے میں مجھے ہمیشہ تامل رہا!) بولے چلے جاتے۔ مگن۔ اپنی ہی دھن میں۔ میرا خیال ہے کہ ان کے منہ […]
انسان کے تخیل، تمنا اور تگودو پر قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔ مگر کیا کیجیے کہ فطرتِ انسانی اس قدر آزاد واقع نہیں ہوئی کہ حد سے بڑھے ہوئے امکانات کا ساتھ دے سکے۔ ہم آسائش پیدا کر سکتے ہیں مگر اس آسائش کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مٹاپے سے جان نہیں چھڑا سکتے۔ درد کی دوا ڈھونڈ سکتے ہیں مگر دوا سے پیدا ہونے والے روگ کا چارہ نہیں کر سکتے۔ پھل کو بےموسم اگا اور کھا سکتے ہیں مگر اس شغل کے عواقب سے چھٹکارا نہیں پا سکتے۔ تحفظ کے لیے پیسا کما سکتے ہیں مگر پیسے کے ساتھ آنے والے عدمتحفظ کی راہ نہیں روک سکتے۔ ہماری آرزوؤں میں ایک کائنات آباد سہی مگر ہماری فطرت میں بھی ہماری اوقات پھسکڑا مار کر بیٹھی ہوئی ہے۔ سماجی واسطے جنھیں ہم سوشل میڈیا (Social Media) کے نام سے جانتے ہیں مجھے کافی دنوں سے اوقات یاد دلا رہے ہیں۔ انسان نے انسان سے قریب ہونے کی یہ بازی بہت اچھی کھیلی ہے۔ اپنے پیاروں سے دور ہوتے ہوئے بھی ان کے چہرے پڑھنے، دکھ بانٹنے، ساتھ نبھانے بہت آسان ہو گئے ہیں۔ انسان اگر معجزے پر قادر ہے تو وہ اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے؟ مگر کیا کیجیے۔ بساطِ ہستی پر ایک شاطر اور بھی موجود ہے۔ انسان سے کہیں تیز۔ اس کی ٹیکنالوجی سے کہیں درازدست۔ اس نے ہماری فطرت، ہماری اوقات میں یہ معجزہ ہضم کرنے کا مادہ ہی نہیں پیدا ہونے دیا۔ جتنا اور جس قسم کا تعلق انسان کا انسان سے ضروری سمجھا بس اسی قدر ارتباط کی گنجائش رکھی۔ اس سے کم پر بھی نتیجہ دیوانگی کی صورت میں نکلتا ہے اور زیادہ پر بھی۔ میں لوگوں سے بہت زیادہ ملنے جلنے والا آدمی تھا۔ شاید کوئی اسے مبالغہ خیال کرے مگر فیالحقیقت سونے جاگنے سمیت دن کے چوبیس گھنٹوں […]
سقراط سے ایک بڑا جامع و مانع مقولہ منسوب ہے۔ کہتا ہے: اپنے آپ کو جان۔ پھر ایک روایت اسلام میں بھی اسی طرز کی چلی آتی ہے۔ من عرف نفسه فقد عرف ربّه جس نے اپنے آپ کو جان لیا اس نے خدا کو جان لیا۔ انسان کی خودی میں خدا اور خدائی دونوں کا پرتَو موجود ہے۔ یہ حضرتِ انسان پر ہے کہ وہ اس خدا کو یزداں کا مثیل بناتا ہے یا اہرمن کا نظیر۔ اس خدائی میں بہشت تشکیل دیتا ہے یا دوزخ تعمیر کرتا ہے۔ آدم میں پھونکا ہوا خدا کا سانس خدا ہی جانے کیسا شرف ہے، کیسی فضیلت ہے کہ روئے زمین پر ہر فساد، ہر فتنہ اسی سانس سے قوت پکڑتا ہے۔ شاید یہی سانس وہ بھاری ذمہداری تھی جس کی نسبت قرآن ذکر کرتا ہے کہ اس کا طوق اس ظلوم و جہول نے اپنے گلے میں ڈال لیا جبکہ پہاڑ اس سے ڈر گئے تھے۔ جنت اور جہنم کی تخلیق سے بڑی ذمہداری اور کیا ہو سکتی ہے؟ خالق کے کام مخلوق پر ڈالے جائیں تو فساد کیونکر نہ پیدا ہو؟ خدا کا یہ سانس کھنکتی ہوئی مٹی کے اس حقیر ٹھیکرے کو ٹہوکے دیتا رہتا ہے کہ وہ بھی خدا ہی کی طرح اپنی ذات کے ادعا میں سرگرم رہے۔ اسے بھی لگتا ہے کہ وہ ایک چھپا ہوا خزانہ ہے جسے اپنے ظہور کے لیے کمازکم ایک کائنات تو تخلیق کرنی ہی چاہیے۔ خدا کی کائنات میں ابنائے آدم کی اکثریت محض اسی سرگرمی میں مدتِ عمر بسر کرتی ہے۔ ایک کائنات کی تخلیق میں جس کا خدا مٹی کا ایک ٹھیکرا ہو۔ چھوٹی کائنات یا بڑی کائنات۔ کیا فرق پڑتا ہے؟ کسان سمجھتا ہے کہ وہ دنیا کا انداتا ہے۔ تاجر خیال کرتا ہے کہ وہ تمدن کی رگوں میں دوڑنے والا خون ہے۔ طبیب کو زعم […]
فلسفیانہ تشکیک شبہ کا نام ہے۔ اور مریضانہ شبہے کا بھی نہیں۔ بلکہ اس احتیاط اور ہوشمندی کا جو بشر کو اس کی خطا پر خطا کرنے سے پیشتر متنبہ کر دینا چاہتی ہے۔ گویا حق کے متلاشیوں کے لیے انتہا درجے کی دیانتداری جو ممکن ہے وہ یہ ہے کہ وہ کسی ادعا پر بلاثبوت یقین نہ کریں۔ بلکہ ہر اس مظہر کو جانچنے اور پرکھنے کی اپنی سی کوشش کریں جو دعویٰ رکھتا ہے یا جس کی نسبت دعویٰ رکھا جاتا ہے کہ وہ ہے۔ اس زاویۂِ نگاہ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تشکیک ایک مثبت رویہ ہے جو بظاہر ہر شے کی نفی کے درپے ہونے کے باوجود درحقیقت اس بات کا متمنی ہے کہ اس کی رسائی اعلیٰ ترین حقیقت تک ہو جائے۔ اسے خطا کے امکان اور جھوٹ کے شائبے سے مکمل نجات مل جائے۔ اگر تشکیک یہ مقصد اپنے بطون میں نہاں نہیں رکھتی تو اسے فکری کی بجائے نفسیاتی رویہ کہنا زیادہ مناسب ہے۔ یعنی جو شخص بغیر کسی مقصد کے ہر شے کی حقیقت پر شک کرنے کا عادی ہے وہ اغلب ہے کہ مدبر نہیں مریض ہے۔ میرا گمان ہے کہ الحاد کی بنیادیں شعوری یا غیرشعوری طور پر ہمیشہ مدبرانہ کی بجائے مریضانہ تشکیک پر استوار ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسل نے تشکیک کو بند گلی قرار دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک ملتی جلتی بات بہت پہلے سے ایک حکیم سے منسوب چلی آتی ہے کہ وہم کا علاج لقمان کے پاس بھی نہیں تھا۔ کیا مریضانہ تشکیک بھی ایک وہم کا نام ہے؟ اس سوال کا جواب میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔ صحتمندانہ یا مدبرانہ تشکیک جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں حقیقت کی جستجو میں خطا کے امکان کو کم سے کم کرنے کی سعی کا نام ہے۔ […]
موتی سمندر میں پیدا ہوتا ہے مگر سمندر کے لیے پیدا نہیں ہوتا۔ پانیوں کی اندھی گہرائیوں اور لہروں کے دبنگ تھپیڑوں میں سے آج نہیں تو کل نکل آئے گا اور انسانوں کی بستی میں بیچا جائے گا۔ کسی تخت پر دمک دمک اٹھے گا یا کوٹ پیٹ کر کشتہ کر دیا جائے گا۔ آج نہیں تو کل۔ بشر بھی شاید ایک ایسا ہی موتی ہے۔ دنیا میں پیدا ہوتا ہے مگر دنیا کے لیے نہیں۔ اپنے مشاغل و علائق کی اندھی گہرائیوں اور حوادثِ زمانہ کے دبنگ تھپیڑوں سے آج نہیں تو کل نکال لیا جائے گا اور کسی اور بستی میں لے جا کر آنکا جائے گا۔ کسی تخت پر دمک دمک اٹھے گا یا کوٹ ڈالا جائے گا۔ آج نہیں تو کل۔ موتی سمندر میں پیدا ہوتا ہے مگر پانی کا یہ لامحدود جہان اسے پانی نہیں بنا سکتا۔ وہ موتی ہی رہتا ہے۔ شاید اس لیے کیونکہ وہ سمندر کی وسعتوں میں قطرہ بھر اضافے کی غرض سے پیدا نہیں کیا گیا۔ بشر کا یہی حال ہے۔ کائنات میں رہتا ہے مگر لاکھ جتن کر لے کائنات کا حصہ نہیں بن پاتا۔ بشر ہی رہتا ہے۔ اسے اس لیے پیدا نہیں کیا گیا۔ یہ دو جہان ہیں، صاحبو۔ موتی کا جہان اور سمندر کا جہان۔ اندر کا جہان اور باہر کا جہان۔ بشر کا جہان اور زمانے کا جہان۔ کائناتِ اصغر اور کائناتِ اکبر۔ کچھ بھی کہہ لیجیے۔ نام میں کیا رکھا ہے؟ انسان ایک ہی وقت میں دونوں جہانوں میں جیتا ہے۔ مگر اکثر بےخبر رہتا ہے۔ زمانے کے سمندر میں آنکھ کھولنے کے بعد اس کے لیے یہ گمان کرنا نہایت دشوار ہو جاتا ہے کہ وہ خود اس کا حصہ نہیں ہے۔ وہ اردگرد کے پانی کی طرح پانی نہیں ہے۔ وہ موتی ہے۔ آج نہیں تو کل نکال لیا جائے گا۔ […]
محاورات، روزمرہ، تلمیحات اور ضرب الامثال کو زبان کے زیور کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ ان کی مدد سے سادہ بات کا بیان نہ صرف خوبصورت اور سحرانگیز ہو جاتا ہے بلکہ بسااوقات کلام کی بلاغت بھی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ عہدِ حاضر میں اردو کی مناسب سرکاری سرپرستی نہ ہونے کے سبب عوام بالعموم اور نوجوان نسل بالخصوص زبان کے بہت سے ضروی پہلوؤں سے ویسی واقفیت نہیں رکھتے جیسی کہ ہونی چاہیے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ محاورے، روزمرہ، تلمیح اور ضرب المثل کا تصور اکثریت کے ذہنوں میں پوری طرح واضح نہیں اور انھیں باہمدگر متبادل سمجھنے اور اسی طرح برتنے کا رواج جڑ پکڑ رہا ہے۔ گزشتہ کچھ دنوں میں مجھے اتفاقاً اس قسم کے سوالات سے متواتر پالا پڑا تو خیال آیا کہ کیوں نہ انٹرنیٹ کی اردو گو دنیا کے لیے اس قضیے کو ایک جامع نگارش کے ذریعے فیصل کر دیا جائے۔ معلومات کو جامعیت سے پیش کرنے کے لیے جدول بندی سے بہتر راہ میرے ذہن میں نہیں آتی۔ سو یہی اختیار کی ہے۔ تاہم جدول آخر میں پیش کی گئی ہے اور اس سے پہلے تمام اصطلاحات کی مختصراً وضاحت کرنا ضروری سمجھا گیا ہے۔ اس طرح ان تصورات کا خاکہ پہلے کھنچ جائے گا جو جدول کی مدد سے بعدازاں پوری طرح ذہن نشین کیا جا سکتا ہے۔ اس سے پہلے کہ میں مدعا کی طرف بڑھوں، یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس نگارش کے لیے میں نے مختلف مصادر و مآخذ سے آزادانہ استفادہ کیا ہے۔ تاہم چونکہ یہ تحریر تحقیقی کی بجائے عمومی مقاصد کے لیے لکھی گئی ہے سو حوالہ جات کا تکلف ضروری نہیں سمجھا۔ تمام محبانِ اردو پر درود! محاورہ محاورہ دراصل فعل ہی کی ایک شکل ہے جس میں سادہ طور پر اظہارِ مطلب کی بجائے اہلِ زبان ایک مختلف اور […]
سرزمینِ وطن بھی خوب دیار ہے۔ نام کی پاک اور خمیر کی پاک پرست۔ اصل کے تو ہندوستانی ہی ہیں نا ہم۔ کہتے ہیں چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے۔ ہم بھی ہندو مت سے تائب تو جیسے تیسے ہو گئے ہندویت سے نہ گئے۔ کیا ہمارے سید، کیا افغان، کیا علما، کیا جہلا، کیا سجدہ گزار، کیا دین بیزار، کیا عوام، کیا خواص۔ سب کے سب دیو داس! گو کہ غلاموں کے اس نخاسِ اعظم کی بوقلمونی اور تنوع کا منکر کوئی اندھا ہی ہو سکتا ہے مگر جیسا کہ دستور ہے ہم آسانی کے لیے اس منڈی کے مال کو دو قسموں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ ایک وہ غلام ہیں جو خود کو علی الاعلان غلام مانتے ہیں اور اکثریتی طبقہ ہیں۔ دوسرے وہ ہیں جو غلامی کے طوق کو گریبان میں چھپا کر رکھنے کے قائل ہیں اور اقلیتی گروہ ہیں۔ پہلے لوگ کسی نہ کسی انسان کے پجاری ہیں اور دوسرے چڑھتے سورج کے۔ پہلا گروہ اہلِ مذہب کا ہے۔ مذہب کی بار بار دہرائی جانے والی کہانی بڑی سادہ ہے۔ ایک شخص آتا ہے۔ انسانوں کے بنائے ہوئے نظاموں میں پستے ہوئے انسانوں کو خدا کے نظام کے مطابق چلنے کی دعوت دیتا ہے۔ اور ایک مدتِ عمر کے بعد رخصت ہو جاتا ہے۔ اس کے متبعین خدا کے نظام پر چلنے کے سبب کامیابیاں سمیٹتے ہیں۔ ان کامیابیوں سے دنیادار لوگوں کے کان کھڑے ہوتے ہیں اور وہ اس دین کو کاروباری موقع کے طور پر استعمال کرنے کی ترکیبیں سوچنے لگتے ہیں۔ پنڈت پیدا ہوتے ہیں، ربی قدم رنجہ فرماتے ہیں، پادری نازل ہوتے ہیں، مولوی تشریف لاتے ہیں۔ خدا کے نظام کی نظامت سنبھال لیتے ہیں۔ خلقِ خدا پھر پسنے لگتی ہے۔ رفتہ رفتہ معاشرہ وہیں پہنچ جاتا ہے جہاں سے چلا تھا۔ تاریخ کے سبق بڑے سیدھے […]
خدا نے ہر عروج کو زوال رکھا ہے مگر ہر زوال کے نصیب میں عروج نہیں لکھا۔ کتنے چڑھے مگر اتر گئے۔ کتنے گرے، کچھ اٹھے، بہت رزقِ خاک ہو گئے۔ مجھے کم از کم اپنے محدود مطالعے کی بنیاد پر ایک بھی قوم ایسی نظر نہیں آئی جس نے اپنے عروج کو ماضی سے کشید کیا ہو۔ وہ لوگ بھی میں نے دیکھے ہیں جو حال کا گہرا شعور رکھتے ہیں۔ مگر ان لوگوں کو تو پوری دنیا نے دیکھا ہے جنھوں نے ماضی اور حال دونوں سے بےنیاز ہو کر مستقبل پر کمند پھینکی۔ میں نے قرآن، عہدنامۂ جدید اور عہدنامۂِ عتیق کو عصرِ نو کے ایک نیمخواندہ مگر دردمند انسان کی حیثیت سے پڑھا ہے۔ ان تینوں کی بنیادی تعلیم مجھے یہ معلوم ہوئی ہے کہ اپنے ماضی سے جان چھڑاؤ۔ اپنے باپ دادا کے منگھڑت افسانوں سے نکل کر دیکھو کہ خدا اور اس کا نظام تم سے کیا تقاضا کر رہا ہے۔ آیاتِ تشریعی کی منچاہی تعبیروں سے حذر کرو اور اور آیاتِ تکوینی کی صورت میں چنگھاڑتے ہوئے خدا کے پیغام کو سنو۔ تاریخ کا مجھے علم نہیں۔ مگر جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے میں ایک بات سنتا آ رہا ہوں۔ وہ بات یہ ہے کہ مسلمان بےعمل ہو گئے ہیں۔ ہمارے زوال کا سبب ہماری بےعملی کے سوا کچھ نہیں۔ کچھ وقت اس بات پر یقین بھی رہا اور اپنے تئیں خود کو باعمل مسلمان بنانے کی کوشش بھی میں کرتا رہا۔ پھر کچھ سوالات کھڑے ہوئے۔ پھر بےراہروی پیدا ہوئی۔ پھر جوابات بھی ملنے لگے۔ میں واپس بھی پلٹ آیا۔ مگر بہت سے لوگ اب تک بھٹک رہے ہیں۔ میں آج انھیں ایک بات بتانا چاہتا ہوں جو مجھے امتِ مرحوم کے زوال کے اصل سبب سے متعلق معلوم ہوئی۔ جھوٹ اور دجل و فریب کے پاس بہت حیلے سہی […]
کچھ دن پہلے ایک کی بورڈ خریدا تھا۔ وہ کچھ گڑبڑ کر رہا تھا۔ واپس کروانا روز بھول جاتے تھے۔ آج وہ روزِ سعید تھا کہ بالآخر نکل ہی کھڑے ہوئے۔ دکاندار نہایت بااخلاق، دیانتدار اور شائستہ نوجوان ہے۔ اس نے بڑی محبت سے نیا کی بورڈ پیش کیا۔ ہم نے کہا کہ ہمارے فون کے لیے ایک آدھ چارجر بھی دے دو۔ تعمیل ہوئی اور ہم ادائیگی کر کے نکل آئے۔ پیچھے سے ایک غلغلہ بلند ہوا۔ ہڑبڑا کے دیکھا تو دکاندار کو کچھ اول جلول اشارے کرتے پایا۔ اب ہم اشارے سمجھتے ہوتے تو چوتھی شادی نہ کر چکے ہوتے؟ دوبارہ دکان میں داخل ہوئے کہ قضیے کی تفصیل معلوم کریں۔ پتا چلا کہ فون میز پر بھول گئے تھے۔ خدا کا شکر جس نے ہم بےبضاعتوں کو فون عطا کیا۔ ورنہ ہم خدا جانے چارجر سے کیا چارج کرتے؟ ایک جگہ بازار میں اور رکے۔ یہاں ادائیگی کرتے ہوئے اندازہ ہوا کہ پچھلے دکاندار کو ایک ہزار روپے دیے تھے اور اس نے غالباً پانچ سو سمجھ کر بقایا دے دیا۔ ہم نے بھی حسبِ عادت جو ملا الحمدللہ کہہ کر جیب میں ڈال لیا۔ اب کیا کریں؟ واپس پلٹے۔ دکاندار کو آگاہ کیا۔ اس بیچارے کے ذہن میں ہزار ہوتا تو پانچ سو کا بقایا ہی کیوں دیتا؟ کچھ دیر ایمان اور یادداشت کے مختلف پہلوؤں پر ہر دو طرف سے حسبِ توفیق روشنی ڈالی گئی۔ پھر دکاندار نے پانچ سو روپے نکال کے میز پر رکھ دیے۔ ہمیں بڑی شرم آئی۔ پیسے اسے واپس تھمائے، ہاتھ جوڑے اور گھر لوٹ آئے۔ گھر پہنچ کر معلوم ہوا کہ دروازہ کھلا چھوڑ گئے تھے اور اہلِ خانہ بوجوہ متوجہ نہ تھے۔ کچھ فقیرنیاں بغیر اطلاع کے وارد ہوئیں اور واپس نکل گئیں تو انھیں خبر ہوئی۔ اب سوچ رہے ہیں کہ خسارے کا حساب کریں مگر ہمارا […]
آج کل ایک فقرہ ہمارےنوجوانوں کو رٹا دیا گیا ہے اور وہ سعادت مندی اور دین داری کے جوش میں اسے جا بجا نقل کرتے نظر آتے ہیں۔ گزشتہ سال بھر میں میرے کانوں سے یہ الفاظ اتنی بار ٹکرائے ہیں اور نظر سے اتنی بار گزرے ہیں کہ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ فی زمانہ ایک خاص طبقے کی مقبول ترین دلیل ہے۔ فقرہ کم و بیش یوں ہے کہ جو اسلام کو گالی نہیں دے سکتا وہ ملّا کو گالی دے کر بھڑاس نکال لیتا ہے۔ تشویش کی بات یہ نہیں کہ یہ ایک بالکل لغو خیال ہے۔ غلط خیالات سے تو عوام کا نظام العقائد ہمیشہ پر ہوتا ہے اور ہر جگہ اور ہر زمانے میں ان کے ہاں من گھڑت چیزوں کو حقائق پر بوجوہ فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ پریشانی اس بات کی ہے کہ اس بات سے معاشرے کا ایک ایسا گروہ بےانتہا فائدہ اٹھا رہا ہے جو کسی طور پر نہ اسلام کا خیرخواہ ہے نہ عوام کا۔ یہ گروہ مسلمانوں اور پاکستانیوں کی ساکھ پر گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو کے مصداق آئے دن ہلہ بولتا رہتا ہے اور خطرہ ہے کہ اس دلیل کی بدولت خدانخواستہ اسلام اور پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ مذکورہ فقرے کی صحت و صلابت کو پرکھنے کے لیے ارسطو یا نابغہ ہونا ضروری نہیں۔ محض آنکھیں اور دماغ کی کھڑکیاں کھولنے کی ضرورت ہے۔ حقیقت یہ ہے اور لطیفہ بھی یہی ہے کہ اسلام کو دنیا روز ایک نئی گالی دیتی ہے اور مسلمان اس کا بال تک بیکا نہیں کر سکتے۔ مسلمانوں پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں، قرآن جلائے جاتے ہیں، نبی اکرم ﷺ کے خاکے اڑائے جاتے ہیں، امت کو دجالی اور شیطانی قرار دیا جاتا ہے، حجاب لینے سے لے کر زندہ رہنے تک کے […]